SAHIH BUKHARI HADEES NO.85
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب ) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل
جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔
حدیث نمبر 86
SAHIH BUKHARI HADEES NO.86
میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے
آسمان کی طرف اشارہ کیا ( یعنی سورج کو گہن لگا ہے ) اتنے میں لوگ ( نماز کے لیے ) کھڑے ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ
عنہا نے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا ( کیا یہ گہن ) کوئی ( خاص ) نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی
ہاں! پھر میں ( بھی نماز کے لیے ) کھڑی ہو گئی۔ حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (
نماز کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے
پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر
یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، مثل یا قرب کا کون سا لفظ اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی،
فاطمہ کہتی ہیں ( یعنی ) فتنہ دجال کی طرح ( آزمائے جاؤ گے ) کہا جائے گا ( قبر کے اندر کہ ) تم اس آدمی کے بارے
میں کیا جانتے ہو؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، کون سا لفظ فرمایا اسماء رضی اللہ عنہا نے، مجھے یاد نہیں۔
وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے
ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تین بار ( اسی طرح کہے گا ) پھر ( اس سے ) کہہ
دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہرحال منافق یا
شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا۔ تو وہ ( منافق یا شکی آدمی ) کہے گا
کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے ( بھی ) وہی کہہ دیا۔ ( باقی میں کچھ نہیں جانتا۔ )
حدیث نمبر 87
SAHIH BUKHARI HADEES NO.87
میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا ( ایک مرتبہ ) ابن عباس رضی
اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان ( کے لوگ ہیں ) آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو ( آنا ) یا مبارک ہو اس وفد کو ( جو کبھی ) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو ( اس کے بعد
) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ
کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ ( پڑتا ) ہے ( اس کے خوف کی وجہ سے ) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام
میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی ( قطعی ) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو
خبر دے دیں۔ ( اور ) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا
حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ ( پھر ) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ
پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ( ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ
کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ
کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (
چوتھی چیز کے بارے میں ) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات نقير کہتے تھے اور بسا اوقات مقير ۔ ( اس کے بعد )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان ( باتوں کو ) یاد رکھو اور اپنے پیچھے ( رہ جانے ) والوں کو بھی ان کی خبر
کر دو۔
حدیث نمبر 88
SAHIH BUKHARI HADEES NO.88
عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور
جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ ( یہ سن کر ) عقبہ نے کہا، مجھے
نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا، کس طرح ( تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے ) حالانکہ ( اس کے متعلق یہ ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس
لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔
حدیث نمبر 89
SAHIH BUKHARI HADEES NO.89
میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے ( پورب
کی طرف ) بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا
کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی فرمودہ ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری
ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا ( جب واپس آیا ) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور ( میرے
بارے میں پوچھا کہ ) کیا عمر یہاں ہیں؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے۔
( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ) پھر میں ( اپنی بیٹی ) حفصہ کے پاس گیا،
وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ وہ کہنے لگی میں نہیں
جانتی۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ ( صلی اللہ
علیہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ( یہ افواہ غلط ہے ) تب
میں نے ( تعجب سے ) کہا الله اكبر اللہ بہت بڑا ہے۔
حدیث نمبر 90
SAHIH BUKHARI HADEES NO.90
ایک شخص ( حزم بن ابی کعب ) نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر ) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں
شخص ( معاذ بن جبل ) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں ( جماعت کی ) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا ( کیونکہ میں دن
بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا ) (
ابومسعود راوی کہتے ہیں ) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا
غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم ( ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے )
نفرت دلانے لگے ہو۔ ( سن لو ) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت
والے ( سب ہی قسم کے لوگ ) ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر 91
SAHIH BUKHARI HADEES NO.91
ایک شخص ( عمیر یا بلال ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی ( پہچان لے ) پھر ایک سال تک
اس کی شناخت ( کا اعلان ) کراؤ پھر ( اس کا مالک نہ ملے تو ) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے
سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ ( کے بارے میں ) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار
مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے ( پاؤں کے ) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے
گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا
کہ اچھا گم شدہ بکری کے ( بارے میں ) کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی
کی، ورنہ بھیڑئیے کی ( غذا ) ہے۔
0 Comments